عمر ساری تری چاہت میں بتانی پڑ جائے
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آگ بجھانی پڑ جائے
میری اس خانہ بدوشی کا سبب پوچھتے ہو
اپنی دیوار اگر تم کو گرانی پڑ جائے
میرے اعدا سے کہو حد سے تجاوز نہ کریں
یہ نہ ہو مجھ کو بھی شمشیر اٹھانی پڑ جائے
کیا تماشا ہو اگر وقت کے سلطان کو بھی
در انصاف کی زنجیر ہلانی پڑ جائے
کاش پھر مجھ سے وہ پوچھیں مری وحشت کا سبب
کاش پھر مجھ کو وہ تصویر دکھانی پڑ جائے
دشت سے شہر میں کچھ سوچ کے آنا آصفؔ
زندگی بھر کی ریاضت پہ نہ پانی پڑ جائے

غزل
عمر ساری تری چاہت میں بتانی پڑ جائے
آصف شفیع