عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
ساحل ساحل جذبے تھے اور دریا دریا پہنچی میں
شہر میں اس کے نام کے جتنے شخص تھے سب ہی اچھے تھے
صبح سفر تو دھند بہت تھی دھوپیں بن کر نکلی میں
اس کی ہتھیلی کے دامن میں سارے موسم سمٹے تھے
اس کے ہاتھ میں جاگی میں اور اس کے ہاتھ سے اجلی میں
اک مٹھی تاریکی میں تھا اک مٹھی سے بڑھ کر پیار
لمس کے جگنو پلو باندھے زینہ زینہ اتری میں
اس کے آنگن میں کھلتا تھا شہر مراد کا دروازہ
کنویں کے پاس سے خالی گاگر ہاتھ میں لے کر پلٹی میں
میں نے جو سوچا تھا یوں تو اس نے بھی وہی سوچا تھا
دن نکلا تو وہ بھی نہیں تھا اور موجود نہیں تھی میں
لمحہ لمحہ جاں پگھلے گی قطرہ قطرہ شب ہوگی
اپنے ہاتھ لرزتے دیکھے اپنے آپ ہی سنبھلی میں

غزل
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
کشور ناہید