عمر لمبی تو ہے مگر بابا
سارے منظر ہیں آنکھ بھر بابا
زندگی جان کا ضرر بابا
کیسے ہوگی گزر بسر بابا
اور آہستہ سے گزر بابا
سامنے ہے ابھی سفر بابا
تم بھی کب کا فسانہ لے بیٹھے
اب وہ دیوار ہے نہ در بابا
بھولے بسرے زمانے یاد آئے
جانے کیوں تم کو دیکھ کر بابا
ہاں حویلی تھی اک سنا ہے یہاں
اب تو باقی ہیں بس کھنڈر بابا
رات کی آنکھ ڈبڈبا آئی
داستاں کر نہ مختصر بابا
ہر طرف سمت ہی کا صحرا ہے
بھاگ کر جائیں گے کدھر بابا
اس کو سالوں سے ناپنا کیسا
وہ تو ہے صرف سانس بھر بابا
ہو گئی رات اپنے گھر جاؤ
کیوں بھٹکتے ہو در بدر بابا
راستہ یہ کہیں نہیں جاتا
آ گئے تم ادھر کدھر بابا

غزل
عمر لمبی تو ہے مگر بابا
شین کاف نظام