عمر کی اولیں اذانوں میں
چین تھا دل کے کار خانوں میں
لہلہاتے تھے کھیت سینے کے
بانسری بج رہی تھی کانوں میں
بانسری جس کی تان ملتی تھی
خواب کے بے نمو جہانوں میں
خواب جن کے نشان ملنا تھے
آنے والے کئی زمانوں میں
مسکراہٹ چراغ ایسی تھی
روشنی کھل اٹھی مکانوں میں
روشنی جس کا دل دھڑکتا تھا
دور صحرا کے ساربانوں میں
وہ کسی باغ جیسی حیرانی
اب اگر ہے تو داستانوں میں
غزل
عمر کی اولیں اذانوں میں
حماد نیازی