عمر کے لمبے سفر سے تجربہ ایسا ملا
دھوپ جب بھی سر پہ آئی لاپتا سایہ ملا
دیکھنا ہے عکس مجھ کو اپنا پورا ہی مگر
جب ملا وو آئنہ مجھ کو ذرا ٹوٹا ملا
ہنستے چہروں کی کہانی جانتی ہوں خوب میں
جس کو بھی پرکھا وہی ٹوٹا ملا بکھرا ملا
جل رہے تھے پاؤں اک مدت سے راحت کے لیے
جس طرف بھی میں گئی تپتا ہوا صحرا ملا
رات دن مانگا دعا جس ہم سفر کے واسطے
میرے جیتے جی وو میرا مرثیہ پڑھتا ملا
یہ سفر میں نے اکیلے ہی کیا ہے چاندنیؔ
ہم سفر مجھ کو کہاں کوئی مرے جیسا ملا

غزل
عمر کے لمبے سفر سے تجربہ ایسا ملا
چاندنی پانڈے