EN हिंदी
عمر انکار کی دیوار سے سر پھوڑتی ہے (ردیف .. ا) | شیح شیری
umr inkar ki diwar se sar phoDti hai

غزل

عمر انکار کی دیوار سے سر پھوڑتی ہے (ردیف .. ا)

ساقی فاروقی

;

عمر انکار کی دیوار سے سر پھوڑتی ہے
رنج یہ ہے اسے آیا نہ سلیقہ اپنا

ایک دن رات کے اسرار کھلیں گے ہم پر
شک کی بوچھار سے چھلنی ہوا سینہ اپنا

خرد بینوں سے کئی داغ چھپائے اپنے
غم گساروں نے کوئی بھید نہ پایا اپنا

اپنی کھوئی ہوئی آواز رسائی مانگے
جاں سے الجھا ہے کوئی نغمہ رسیلا اپنا

نیند وہ ریت کی دیوار کہ مسمار ہوئی
اپنی آنکھوں میں چھپا رکھا ہے صحرا اپنا

زندگی ایک گزرتی ہوئی پرچھائیں ہے
آئینہ دیکھتا رہتا ہے تماشا اپنا

برگ آواز کے مانند اڑیں گے یہ پہاڑ
غرق ہو جائے گا پانی میں جزیرہ اپنا

خواب دیکھا تھا کہ ہم ہوں گے بچھڑنے والے
منہدم ہو گئے پر خواب نہ ٹوٹا اپنا

چاند کی طرح کئی داغ ہیں پیشانی پر
موت کے سامنے مہتاب ہے چہرا اپنا