عمر گزری اسی میدان کو سر کرنے میں
جو مکاں ہم کو ملا تھا اسے گھر کرنے میں
عشق آسان کہاں عمر گزر جاتی ہے
اپنی جانب کسی غافل کی نظر کرنے میں
آزمائش سے تو بے چاری غزل بھی گزری
اک شہنشاہ بہادر کو ظفر کرنے میں
صبح کے بعد بھی کچھ لوگوں کی نیندیں نہ کھلیں
اور ہم ٹوٹ گئے شب کو سحر کرنے میں
لاکھ دشوار ہو دل کو تو سکوں ملتا ہے
زندگی اپنے طریقے سے بسر کرنے میں
رنگ لائیں گی تمنائیں ذرا صبر کرو
وقت لگتا ہے دعاؤں کو اثر کرنے میں
غزل
عمر گزری اسی میدان کو سر کرنے میں
مجاہد فراز