عمر ابد کا ماحصل عشق کا دور ناتمام
ہائے وہ مستیٔ سحر ہائے وہ بے خودئ شام
پہلے مآل سوچ لیں ہم سفران سست گام
میری سرشت میں نہیں خواہش منزل و مقام
طائر خستہ ہال کو دام بھی کنج آشیاں
مرغ چمن نورد کو گوشۂ آشیاں بھی دام
اب بھی خدا پرست ہے دیر و حرم کی قید میں
ہائے نگاہ نا رسا ہائے مذاق نا تمام
کیف نظر کی مستیاں اہل نظر سے پوچھئے
جیسے کوئی پلا گیا بادۂ مشک بو کے جام
خوبی و شان دلبری غمزہ و ناز ہی نہیں
حسن میں وہ ادا بھی ہے جس کا نہیں ہے کوئی نام
غزل
عمر ابد کا ماحصل عشق کا دور ناتمام
ظفر تاباں