عمر بھر اس نے اسی طرح لبھایا ہے مجھے
وہ جو اس دشت کے اس پار سے لایا ہے مجھے
کتنے آئینوں میں اک عکس دکھایا ہے مجھے
زندگی نے جو اکیلا کبھی پایا ہے مجھے
تو مرا کفر بھی ہے تو مرا ایمان بھی ہے
تو نے لوٹا ہے مجھے تو نے بسایا ہے مجھے
میں تجھے یاد بھی کرتا ہوں تو جل اٹھتا ہوں
تو نے کس درد کے صحرا میں گنوایا ہے مجھے
تو وہ موتی کہ سمندر میں بھی شعلہ زن تھا
میں وہ آنسو کہ سر خاک گرایا ہے مجھے
اتنی خاموش ہے شب لوگ ڈرے جاتے ہیں
اور میں سوچتا ہوں کس نے بلایا ہے مجھے
میری پہچان تو مشکل تھی مگر یاروں نے
زخم اپنے جو کریدے ہیں تو پایا ہے مجھے
واعظ شہر کے نعروں سے تو کیا کھلتی آنکھ
خود مرے خواب کی ہیبت نے جگایا ہے مجھے
اے خدا اب ترے فردوس پہ میرا حق ہے
تو نے اس دور کے دوزخ میں جلایا ہے مجھے
غزل
عمر بھر اس نے اسی طرح لبھایا ہے مجھے
احمد ندیم قاسمی