عمر بھر ایک سی الجھن تو نہیں بن سکتے
دوست بن جائیں کہ دشمن تو نہیں بن سکتے
ہم کو معلوم ہے تم کیا نہیں بن پاتے ہو
دھوپ بن جاتے ہو ساون تو نہیں بن سکتے
میں نے دیکھا ہے وہ انسان تمہارے اندر
رام بن جاؤ گے راون تو نہیں بن سکتے
نقد سانسوں کے لئے دل سے محبت کرنا
ہم کبھی قرض کی دھڑکن تو نہیں بن سکتے
ہر شکن آج ہے بستر کی تمہاری خاطر
تم مرے چین کے دشمن تو نہیں بن سکتے
روز اک جیسی اداکاری نہ ہوگی ہم سے
تم بھی اک رات کی دلہن تو نہیں بن سکتے
ایک جیسی تو نہیں ہوتی ہے ساری دنیا
سب ترے روپ کا درپن تو نہیں بن سکتے
میں ہی بن جاؤں گا کچھ دیر کو ان کے جیسا
میرے بچے مرا بچپن تو نہیں بن سکتے
حق طلب کرتے ہیں بخشش تو نہیں مانگتے ہیں
ہم تری بھیک کا برتن تو نہیں بن سکتے
غزل
عمر بھر ایک سی الجھن تو نہیں بن سکتے
ف س اعجاز