EN हिंदी
امید صبح بہاراں خزاں سے کھینچتے ہیں | شیح شیری
ummid-e-subh-e-bahaaran KHizan se khinchte hain

غزل

امید صبح بہاراں خزاں سے کھینچتے ہیں

ظفر عجمی

;

امید صبح بہاراں خزاں سے کھینچتے ہیں
یہ تیر روز دل ناتواں سے کھینچتے ہیں

کشید تشنہ لبی قطرہ قطرہ پیتے ہیں
یہ آب تلخ غم رفتگاں سے کھینچتے ہیں

میں ان سے لقمۂ طیب کی داد کیا چاہوں
جو اپنا رزق دہان سگاں سے کھینچتے ہیں

سبو سے لذت یک گونہ لیتے ہیں لیکن
خمار خاص لب دوستاں سے کھینچتے ہیں

دکھائی پڑتا ہے اعدا میں ایک چہرۂ دوست
سو ہاتھ صاحبو سیف و سناں سے کھینچتے ہیں

خیال تازہ سے کرتے ہیں خواب نو تخلیق
ظفرؔ زمینیں نئی آسماں سے کھینچتے ہیں