امید صبح بہاراں خزاں سے کھینچتے ہیں
یہ تیر روز دل ناتواں سے کھینچتے ہیں
کشید تشنہ لبی قطرہ قطرہ پیتے ہیں
یہ آب تلخ غم رفتگاں سے کھینچتے ہیں
میں ان سے لقمۂ طیب کی داد کیا چاہوں
جو اپنا رزق دہان سگاں سے کھینچتے ہیں
سبو سے لذت یک گونہ لیتے ہیں لیکن
خمار خاص لب دوستاں سے کھینچتے ہیں
دکھائی پڑتا ہے اعدا میں ایک چہرۂ دوست
سو ہاتھ صاحبو سیف و سناں سے کھینچتے ہیں
خیال تازہ سے کرتے ہیں خواب نو تخلیق
ظفرؔ زمینیں نئی آسماں سے کھینچتے ہیں

غزل
امید صبح بہاراں خزاں سے کھینچتے ہیں
ظفر عجمی