EN हिंदी
امیدوں سے دل برباد کو آباد کرتا ہوں | شیح شیری
umidon se dil-e-barbaad ko aabaad karta hun

غزل

امیدوں سے دل برباد کو آباد کرتا ہوں

ہری چند اختر

;

امیدوں سے دل برباد کو آباد کرتا ہوں
مٹانے کے لیے دنیا نئی ایجاد کرتا ہوں

تری میعاد غم پوری ہوئی اے زندگی خوش ہو
قفس ٹوٹے نہ ٹوٹے میں تجھے آزاد کرتا ہوں

جفا کارو مری مظلوم خاموشی پہ ہنستے ہو
ذرا ٹھہرو ذرا دم لو ابھی فریاد کرتا ہوں

میں اپنے دل کا مالک ہوں مرا دل ایک بستی ہے
کبھی آباد کرتا ہوں کبھی برباد کرتا ہوں

ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں ملاقاتوں کے بعد اکثر
وہ مجھ کو بھول جاتے ہیں میں ان کو یاد کرتا ہوں