الفتوں کا خدا نہیں ہوں میں
رنج و غم سے جدا نہیں ہوں میں
ایک عرصہ ہوا گئے اس کو
اب تو اس کا پتا نہیں ہوں میں
کلیوگی سوچ سے ہوں پردوشت
کوئی تازہ ہوا نہیں ہوں میں
خرچوں کے بوجھ نے کمر توڑی
شوق سے کوئی جھکا نہیں ہوں میں
بے وفا با وفا نہیں ہوگا
عشق کی کیمیا نہیں ہوں میں
چند سکے ہیں لوگوں کی قیمت
شکر ہے کہ بکا نہیں ہوں میں
دھرم اور ذات کی جکڑ ایسی
پر تو ہیں پر اڑا نہیں ہوں میں
غزل
الفتوں کا خدا نہیں ہوں میں
آتش اندوری