الفت ہو تو الفت کے سہارے بھی بہت ہیں
آنکھوں میں محبت کے اشارے بھی بہت ہیں
ہمت ہے تو مایوس نہ ہو ڈوبنے والے
طوفان ہیں موجوں کے سہارے بھی بہت ہیں
اے جلوۂ رنگیں کے ضیا دیکھنے والو
ہوں آنکھ اگر ان کے نظارے بھی بہت ہیں
اپنوں نے تو معیار وفا ہی نہ بتایا
اس راہ میں احسان تمہارے بھی بہت ہیں
جی بھر کے ذرا دیکھ تو لوں دور سے گل رنگ
ساقی مجھے اتنے ہی سہارے بھی بہت ہیں
اس بزم کی رنگینیاں ہیں دید کے قابل
اک چاند اگر ہے تو ستارے بھی بہت ہیں
ہے کون سفیرؔ ایسا جو بن جائے سہارا
دل توڑنے والے تو ہمارے بھی بہت ہیں

غزل
الفت ہو تو الفت کے سہارے بھی بہت ہیں
محمد عباس سفیر