EN हिंदी
الفت ہو تو الفت کے سہارے بھی بہت ہیں | شیح شیری
ulfat ho to ulfat ke sahaare bhi bahut hain

غزل

الفت ہو تو الفت کے سہارے بھی بہت ہیں

محمد عباس سفیر

;

الفت ہو تو الفت کے سہارے بھی بہت ہیں
آنکھوں میں محبت کے اشارے بھی بہت ہیں

ہمت ہے تو مایوس نہ ہو ڈوبنے والے
طوفان ہیں موجوں کے سہارے بھی بہت ہیں

اے جلوۂ رنگیں کے ضیا دیکھنے والو
ہوں آنکھ اگر ان کے نظارے بھی بہت ہیں

اپنوں نے تو معیار وفا ہی نہ بتایا
اس راہ میں احسان تمہارے بھی بہت ہیں

جی بھر کے ذرا دیکھ تو لوں دور سے گل رنگ
ساقی مجھے اتنے ہی سہارے بھی بہت ہیں

اس بزم کی رنگینیاں ہیں دید کے قابل
اک چاند اگر ہے تو ستارے بھی بہت ہیں

ہے کون سفیرؔ ایسا جو بن جائے سہارا
دل توڑنے والے تو ہمارے بھی بہت ہیں