اجلے میلے پیش ہوئے
جیسے ہم تھے پیش ہوئے
آیا کون کٹہروں میں
ساتھ کٹہرے پیش ہوئے
اپنے سارے جھوٹ کھلے
کس کے آگے پیش ہوئے
اندازے جب ہار گئے
پھر مفروضے پیش ہوئے
شاہ کو شاید مات ہوئی
شاہ کے مہرے پیش ہوئے
عدل کا چشمہ سوکھ گیا
عدل کے پیاسے پیش ہوئے
ہم بھی شاید صاف نہ تھے
ڈرتے ڈرتے پیش ہوئے
لطف تو اس دن آئے گا
جس دن کھاتے پیش ہوئے
گوہرؔ کیا تعزیر لگی
باقی پرچے پیش ہوئے

غزل
اجلے میلے پیش ہوئے
گوہر ہوشیارپوری