اجالے تیل چھڑکنے لگے اجالوں پر
عجیب وقت پڑا ہے چراغ والوں پر
تمہارا عالم مستی ڈھکا چھپا ہی سہی
مری نگاہ ہے ٹوٹے ہوئے پیالوں پر
تمہارے ذہن میں جو آج چبھ رہے ہوں گے
میں کل سے سوچ رہا ہوں انہیں سوالوں پر
نہ اٹھ سکا ترے طرز خرام سے پردہ
ہوائیں ڈال گئیں خاک پائمالوں پر
محاکمہ نہ کریں آپ اپنی باتوں کا
یہ کام چھوڑ دیا جائے سننے والوں پر
مسلمات سے کیوں قصد انحراف کیا
عقیدے ٹوٹ پڑے ہیں مرے سوالوں پر
یہ کیا ضرور کہ رخ سب کا ایک جانب ہو
فضا کی قید لگاؤ نہ اڑنے والوں پر

غزل
اجالے تیل چھڑکنے لگے اجالوں پر
اعزاز افصل