افق کے اس پار زندگی کے اداس لمحے گزار آؤں
اگر مرا ساتھ دے سکو تم تو موت کو بھی پکار آؤں
کچھ اس طرح جی رہا ہوں جیسے اٹھائے پھرتا ہوں لاش اپنی
جو تم ذرا سا بھی دو سہارا تو بار ہستی اتار آؤں
بدل گئے زندگی کے محور طواف دیر و حرم کہاں کا
تمہاری محفل اگر ہو باقی تو میں بھی پروانہ وار آؤں
کوئی تو ایسا مقام ہوگا جہاں مجھے بھی سکوں ملے گا
زمیں کے تیور بدل رہے ہیں تو آسماں کو سنوار آؤں
اگرچہ اصرار بے خودی ہے تجھے بھی زر پوش محفلوں میں
مجھے بھی ضد ہے کہ تیرے دل میں نقوش ماضی ابھار آؤں
سنا ہے ایک اجنبی سی منزل کو اٹھ رہے ہیں قدم تمہارے
برا نہ مانو تو رہنمائی کو میں سر رہ گزار آؤں
غزل
افق کے اس پار زندگی کے اداس لمحے گزار آؤں
قتیل شفائی