افتاد طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے
شدت کی محبت میں شدت ہی کے غم پہنچے
احوال بتائیں کیا رستے کی سنائیں کیا
با حالت زار آئے بادیدۂ نم پہنچے
جس چہرے کو دیکھا وہ آئینۂ دوری تھا
دیوار کی صورت تھا جس در پہ قدم پہنچے
کچھ لب پہ کچھ آنکھوں میں لے آئے سجا کر ہم
جو رنج کہ ہاتھ آئے جو غم کہ بہم پہنچے
قطع سر شاخ نرم آغاز نموئے نو
صدمے مری چاہت کو پہنچے تو پہ کم پہنچے
وہ شاخ بنے سنورے وہ شاخ پھلے پھولے
جس شاخ پہ دھوپ آئے جس شاخ کو نم پہنچے
غزل
افتاد طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے
ضیا جالندھری