EN हिंदी
اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا | شیح شیری
uf re ubhaar uf re zamana uThan ka

غزل

اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا

ریاضؔ خیرآبادی

;

اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا
کل بام پر تھے آج ہے قصد آسمان کا

رونا لکھا نصیب میں ہے اپنی جان کا
شکوا نہ آپ کا نہ گلا آسمان کا

بازار میں بھی چلتے ہیں کوٹھوں کو دیکھتے
سودا خریدتے ہیں تو اونچی دکان کا

یہ بھی خدا کی شان ہم اب ایسے ہو گئے
سایا بھی بھاگتا ہے تمہارے مکان کا

کیوں غم نصیب دل کو برا کہہ رہے ہو تم
کیوں صبر لے رہے ہو کسی بے زبان کا

واعظ شراب خانے میں کھولے گا کیا زباں
ہم خوب جانتے ہیں وہ ٹرا ہے تھان کا

ہم جام مے کے بھی لب تر چوستے نہیں
چسکا پڑا ہوا ہے تمہاری زبان کا

میں دل کی واردات تو کہنے کو کہہ چلوں
کس کو یقین آئے گا میرے بیان کا

یہ تو کہا تجھے ہو لہو تھوکنا نصیب
تم نے کبھی دیا کوئی ٹکڑا بھی پان کا

میں جاؤں یا نہ جاؤں انہیں لے کے بام پر
بدلا ہوا ہے رنگ بہت آسمان کا

افسانہ تم نے قیس کا شاید سنا نہیں
ٹکڑا ہے ایک وہ بھی مری داستان کا

اب کوئی سینہ چیر کے رکھ لے کہ دل بنائے
آویزہ گر پڑا ہے کوئی ان کے کان کا

آیا جو غیر لطف بہت دیر تک رہا
بدلا تھا میں نے بھیس ترے پاسبان کا

دنیا کی پڑ رہی ہیں نگاہیں ریاضؔ پر
کس وضع کا جوان ہے کس آن بان کا