اف کیا مزا ملا ستم روزگار میں
کیا تم چھپے تھے پردۂ لیل و نہار میں
سو سجدے ایک لغزش مستانہ وار میں
اللہ کیا ادا ہے ترے بادہ خوار میں
روکوں تو موج غم کو دل بے قرار میں
ساغر چھلک نہ جائے کف رعشہ دار میں
کس سے ہو پھر امید کہ تار نظر مرا
خود جا کے مل گیا صف مژگان یار میں
خود حسن بے نیاز نہیں فیض عشق سے
خو میرے دل کی ہے نگہ بے قرار میں
وہ مست ناز حسن میں سرشار آرزو
وہ اختیار میں ہیں نہ میں اختیار میں
آشوب اضطراب میں کھٹکا جو ہے تو یہ
غم تیرا مل نہ جائے غم روزگار میں
باقی رہا نہ کوئی گلہ وقت واپسیں
کیا کہہ گئے وہ اک نگہ شرمسار میں
اک مشق اضطراب کا رکھا ہے نام عشق
اف بیکسی کہ وہ بھی نہیں اختیار میں
بزم سخن میں آگ لگا دی سہیلؔ نے
کیا بجلیاں تھیں خامۂ جادو نگار میں
غزل
اف کیا مزا ملا ستم روزگار میں
اقبال سہیل