ادھر اس کی نگہ کا ناز سے آ کر پلٹ جانا
ادھر مرنا تڑپنا غش میں آنا دم الٹ جانا
کہوں کیا کیا میں نقشے اس کی ناگن زلف کے یارو
لپٹنا اڑ کے آنا کاٹ کھانا پھر پلٹ جانا
اگر ملنے کی دھن رکھنا تو اس ترکیب سے ملنا
سرکنا دور ہٹنا بھاگنا اور پھر لپٹ جانا
نہ ملنے کا ارادہ ہو تو یہ عیاریاں دیکھو
ہمکنا آگے بڑھنا پاس آنا اور ہٹ جانا
یہ کچھ بہروپ پن دیکھو کہ بن کر شکل دانے کی
بکھرنا سبز ہونا لہلہانا پھر سمٹ جانا
یہ یکتائی یہ یک رنگی تس اوپر یہ قیامت ہے
نہ کم ہونا نہ بڑھنا اور ہزاروں گھٹ میں بٹ جانا
نظیرؔ ایسا جو چنچل دل ربا بہروپیا ہووے
تماشا ہے پھر ایسے شوخ سے سودے کا پٹ جانا
غزل
ادھر اس کی نگہ کا ناز سے آ کر پلٹ جانا
نظیر اکبرآبادی