EN हिंदी
ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے | شیح شیری
udhar mazhab idhar insan ki fitrat ka taqaza hai

غزل

ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے

جوشؔ ملیح آبادی

;

ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے
وہ دامان مہ کنعاں ہے یہ دست زلیخا ہے

ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی
الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے

یہ مانا دونوں ہی دھوکے ہیں رندی ہو کہ درویشی
مگر یہ دیکھنا ہے کون سا رنگین دھوکا ہے

کھلونا تو نہایت شوخ و رنگیں ہے تمدن کا
معرف میں بھی ہوں لیکن کھلونا پھر کھلونا ہے

مرے آگے تو اب کچھ دن سے ہر آنسو محبت کا
کنار آب رکناباد و گلگشت مصلےٰ ہے

مجھے معلوم ہے جو کچھ تمنا ہے رسولوں کی
مگر کیا درحقیقت وہ خدا کی بھی تمنا ہے

مشیت کھیلنا زیبا نہیں میری بصیرت سے
اٹھا لے ان کھلونوں کو یہ دنیا ہے وہ عقبیٰ ہے