ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے
وہ دامان مہ کنعاں ہے یہ دست زلیخا ہے
ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی
الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے
یہ مانا دونوں ہی دھوکے ہیں رندی ہو کہ درویشی
مگر یہ دیکھنا ہے کون سا رنگین دھوکا ہے
کھلونا تو نہایت شوخ و رنگیں ہے تمدن کا
معرف میں بھی ہوں لیکن کھلونا پھر کھلونا ہے
مرے آگے تو اب کچھ دن سے ہر آنسو محبت کا
کنار آب رکناباد و گلگشت مصلےٰ ہے
مجھے معلوم ہے جو کچھ تمنا ہے رسولوں کی
مگر کیا درحقیقت وہ خدا کی بھی تمنا ہے
مشیت کھیلنا زیبا نہیں میری بصیرت سے
اٹھا لے ان کھلونوں کو یہ دنیا ہے وہ عقبیٰ ہے
غزل
ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے
جوشؔ ملیح آبادی