ادھر کی شے ادھر کر دی گئی ہے
زمیں زیر و زبر کر دی گئی ہے
یہ کالی رات ہے دو چار پل کی
یہ کہنے میں سحر کر دی گئی ہے
تعارف کو ذرا پھیلا دیا ہے
کہانی مختصر کر دی گئی ہے
نہ پوچھو کیسے گزری عمر ساری
ذرا میں عمر بھر کر دی گئی ہے
عبادت میں بسر کرنی تھی لیکن
خرابوں میں بسر کر دی گئی ہے
کئی ذرات باغی ہو چکے ہیں
ستاروں کو خبر کر دی گئی ہے
وہ میری ہم قدم ہونے نہ پائی
جو میری ہم سفر کر دی گئی ہے
ہمارے جگنوؤں سے دشمنی تھی
ذرا پہلے سحر کر دی گئی ہے
غزل
ادھر کی شے ادھر کر دی گئی ہے
احمد ہمیش