EN हिंदी
ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے | شیح شیری
udhDe hue malbus ka parcham sa gaya hai

غزل

ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے

سجاد بابر

;

ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے
بازار سے پھر آج کوئی ہم سا گیا ہے

جھونکا تھا مگر چھیڑ کے گزرا ہے کچھ ایسے
جیسے ترے پیکر کا کوئی خم سا گیا ہے

چھوڑوں کہ مٹا ڈالوں اسی سوچ میں گم ہوں
آئینے پہ اک قطرۂ خوں جم سا گیا ہے

گالوں پہ شفق پھولتی دیکھی نہیں کب سے
لگتا ہے کہ جسموں میں لہو تھم سا گیا ہے

آنکھوں کی طرح دل بھی برابر رہے کڑوے
ان تنگ مکانوں میں دھواں جم سا گیا ہے

سجادؔ وہی آج کا شاعر ہے جو پل میں
بجلی کی طرح کوند کے شبنم سا گیا ہے