اڑے ہیں ہوش میرے اس خبر سے
نہیں ہے واسطہ اب تیرے در سے
ابھی کتنی سزائیں اور دے گا
نہ مر جاؤں کہیں میں تیرے ڈر سے
بہت باقی ہے برسوں کا تقاضہ
ذرا تم لوٹ کے آؤ سفر سے
بھروسے کے یہاں ہے کون قابل
بشر بہتر کہاں ہے جانور سے
مجھے جینا ہے ان بچوں کی خاطر
نکلنا ہے خیالوں کے بھنور سے
بھلا پائی کہاں ماضی کو سرحدؔ
نمی آنکھوں میں عارض تر بہ تر سے
غزل
اڑے ہیں ہوش میرے اس خبر سے
سیما شرما سرحد