EN हिंदी
اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے | شیح شیری
udasiyon ne meri aatma ko ghera hai

غزل

اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے

مینا کماری

;

اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے
رو پہلی چاندنی ہے اور گھپ اندھیرا ہے

کہیں کہیں کوئی تارہ کہیں کہیں جگنو
جو میری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے

قدم قدم پہ بگولوں کو توڑتے جائیں
ادھر سے گزرے گا تو راستہ یہ تیرا ہے

افق کے پار جو دیکھی ہے روشنی تم نے
وہ روشنی ہے خدا جانے یا اندھیرا ہے

سحر سے شام ہوئی شام کو یہ رات ملی
ہر ایک رنگ سمے کا بہت گھنیرا ہے

خدا کے واسطے غم کو بھی تم نہ بہلاؤ
اسے تو رہنے دو میرا یہی تو میرا ہے