EN हिंदी
اداسیوں میں بھی رستے نکال لیتا ہے | شیح شیری
udasiyon mein bhi raste nikal leta hai

غزل

اداسیوں میں بھی رستے نکال لیتا ہے

وسیم بریلوی

;

اداسیوں میں بھی رستے نکال لیتا ہے
عجیب دل ہے گروں تو سنبھال لیتا ہے

یہ کیسا شخص ہے کتنی ہی اچھی بات کہو
کوئی برائی کا پہلو نکال لیتا ہے

ڈھلے تو ہوتی ہے کچھ اور احتیاط کی عمر
کہ بہتے بہتے یہ دریا اچھال لیتا ہے

بڑے بڑوں کی طرح داریاں نہیں چلتیں
عروج تیری خبر جب زوال لیتا ہے

جب اس کے جام میں اک بوند تک نہیں ہوتی
وہ میری پیاس کو پھر بھی سنبھال لیتا ہے