اداسی نے سماں باندھا ہوا ہے
خوشی کے ساتھ پھر دھوکہ ہوا ہے
مجھے اپنی ضرورت پڑ گئی ہے
مرے اندر سے اب وہ جا چکا ہے
کہانی سے عجب وحشت ہوئی ہے
مرا کردار جب پختہ ہوا ہے
میں ہر در پر صدائیں دے رہا ہوں
کوئی آواز دے کر چھپ گیا ہے
غزل
اداسی نے سماں باندھا ہوا ہے
شہباز رضوی