EN हिंदी
اداسی کے منظر مکانوں میں ہیں | شیح شیری
udasi ke manzar makanon mein hain

غزل

اداسی کے منظر مکانوں میں ہیں

دیومنی پانڈے

;

اداسی کے منظر مکانوں میں ہیں
اندھیرے ابھی آشیانوں میں ہیں

محبت کو موسم نے آواز دی
دلوں کی پتنگیں اڑانوں میں ہیں

زباں والے بھی کاش سمجھیں کبھی
وہ دکھ درد جو بے زبانوں میں ہیں

پرندوں کی پرواز قائم رہے
کئی خواب شامل اڑانوں میں ہیں

کہاں منزلیں گم پتہ ہی نہیں
نگاہیں مگر آسمانوں میں ہیں

گھروں میں ہیں محرومیوں کے نشاں
کہ اب رونقیں بس دکانوں میں ہیں