اداسی کے منظر مکانوں میں ہیں
اندھیرے ابھی آشیانوں میں ہیں
محبت کو موسم نے آواز دی
دلوں کی پتنگیں اڑانوں میں ہیں
زباں والے بھی کاش سمجھیں کبھی
وہ دکھ درد جو بے زبانوں میں ہیں
پرندوں کی پرواز قائم رہے
کئی خواب شامل اڑانوں میں ہیں
کہاں منزلیں گم پتہ ہی نہیں
نگاہیں مگر آسمانوں میں ہیں
گھروں میں ہیں محرومیوں کے نشاں
کہ اب رونقیں بس دکانوں میں ہیں

غزل
اداسی کے منظر مکانوں میں ہیں
دیومنی پانڈے