اداس رات ہے کوئی تو خواب دے جاؤ
مرے گلاس میں تھوڑی شراب دے جاؤ
بہت سے اور بھی گھر ہیں خدا کی بستی میں
فقیر کب سے کھڑا ہے جواب دے جاؤ
میں زرد پتوں پر شبنم سجا کے لایا ہوں
کسی نے مجھ سے کہا تھا حساب دے جاؤ
ادب نہیں ہے یہ اخبار کے تراشے ہیں
گئے زمانوں کی کوئی کتاب دے جاؤ
پھر اس کے بعد نظارے نظر کو ترسیں گے
وہ جا رہا ہے خزاں کے گلاب دے جاؤ
مری نظر میں رہے ڈوبنے کا منظر بھی
غروب ہوتا ہوا آفتاب دے جاؤ
ہزار صفحوں کا دیوان کون پڑھتا ہے
بشیرؔ بدر کا کوئی انتخاب دے جاؤ
غزل
اداس رات ہے کوئی تو خواب دے جاؤ
بشیر بدر