اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے
ترے بغیر یہ گھر کاٹنے کو آتا ہے
خیال موسم گل بھی نہیں ستم گر کو
بہار میں بھی شجر کاٹنے کو آتا ہے
فقیہ شہر سے انصاف کون مانگے گا
فقیہ شہر تو سر کاٹنے کو آتا ہے
اسی لیے تو کسانوں نے کھیت چھوڑ دئیے
کہ کوئی اور ثمر کاٹنے کو آتا ہے
ترے خیال کا آہو کہیں بھی دن میں رہے
مگر وہ رات ادھر کاٹنے کو آتا ہے
کہا تو تھا کہ ہمیں اس قدر بھی ڈھیل نہ دے
اب اڑ رہے ہیں تو پر کاٹنے کو آتا ہے
یہ کام کرتے تھے پہلے سگان آوارہ
بشر کو آج بشر کاٹنے کا آتا ہے
یہ اس کی راہ نہیں ہے مگر یوں ہی باقیؔ
وہ میرے ساتھ سفر کاٹنے کو آتا ہے
غزل
اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے
باقی احمد پوری