EN हिंदी
اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے | شیح شیری
udas baam hai dar kaTne ko aata hai

غزل

اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے

باقی احمد پوری

;

اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے
ترے بغیر یہ گھر کاٹنے کو آتا ہے

خیال موسم گل بھی نہیں ستم گر کو
بہار میں بھی شجر کاٹنے کو آتا ہے

فقیہ شہر سے انصاف کون مانگے گا
فقیہ شہر تو سر کاٹنے کو آتا ہے

اسی لیے تو کسانوں نے کھیت چھوڑ دئیے
کہ کوئی اور ثمر کاٹنے کو آتا ہے

ترے خیال کا آہو کہیں بھی دن میں رہے
مگر وہ رات ادھر کاٹنے کو آتا ہے

کہا تو تھا کہ ہمیں اس قدر بھی ڈھیل نہ دے
اب اڑ رہے ہیں تو پر کاٹنے کو آتا ہے

یہ کام کرتے تھے پہلے سگان آوارہ
بشر کو آج بشر کاٹنے کا آتا ہے

یہ اس کی راہ نہیں ہے مگر یوں ہی باقیؔ
وہ میرے ساتھ سفر کاٹنے کو آتا ہے