اڑا کے پھر وہی گرد و غبار پہلے سا
بلا رہا ہے سفر بار بار پہلے سا
وہ ایک دھند تھی آخر کو چھٹ ہی جانا تھی
دکھائی دینے لگا آر پار پہلے سا
ندی نے راہ سمندر کی پھر وہی پکڑی
صدائیں دیتا رہا ریگزار پہلے سا
کہیں ڈھلان مقدر نہ ہو بلندی کا
چڑھائی پھر نہ ہو اپنا اتار پہلے سا
سوال کیوں نہ چراغ سحر سے کر دیکھیں
جنون اب بھی ہے کیا برقرار پہلے سا
تو کیا پلٹ کے وہی دن پھر آنے والے ہیں
کئی دنوں سے ہے دل بے قرار پہلے سا
غزل
اڑا کے پھر وہی گرد و غبار پہلے سا
اکھلیش تیواری