ابھرتی ڈوبتی سانسوں کا سلسلہ کیوں ہے
کبھی یہ سوچ کہ جو کچھ ہوا ہوا کیوں ہے
بنے ہیں ایک ہی مٹی سے ہم سبھی لیکن
ہماری سوچ میں اس درجہ فاصلہ کیوں ہے
لگا رکھا ہے یہ کس نے کڑی کو اندر سے
اجاڑ گھر کا دریچہ ڈرا ڈرا کیوں ہے
ابھی تو پھول بھی آئے نہیں ہیں شاخوں پر
ابھی سے بوجھ درختوں پہ پڑ رہا کیوں ہے
ٹھہر گیا ہے وہ آ کر انا کے نقطے پر
اسی کے ساتھ مرا وقت رک گیا کیوں ہے
تمہیں نے سوچ کے بچھو لگا کے رکھے تھے
نہیں تو زخم تمہارا ہرا بھرا کیوں ہے
سمجھ رہا ہے کہ تیری کوئی سنے گا نہیں
تو اپنے جسم کی چیخوں سے بولتا کیوں ہے

غزل
ابھرتی ڈوبتی سانسوں کا سلسلہ کیوں ہے
عبید حارث