ابھرتے ڈوبتے تاروں کے بھید کھولے گا
فصیل شب سے اتر کر کوئی تو بولے گا
یہ عہد وہ ہے جو قائل نہیں صحیفوں کا
یہ حرف حرف کو مصلوب کر کے تولے گا
اتر ہی جائے گا رگ رگ میں آج زہر سکوت
وہ پیار سے مرے لہجے میں شہد گھولے گا
مرا نصیب ہی ٹھہرا جو رابطوں کی شکست
طلسم جاں کا بھی یہ قفل کوئی کھولے گا
جو سونے دل میں کہیں بس گیا کوئی آسیب
جہاں بھی جاؤ گے سایہ سا ساتھ ہو لے گا
ہے آج وقت ظفرؔ دل کی بات کہہ ڈالیں
کبھی تو وہ بھی ذرا اپنا دل ٹٹولے گا

غزل
ابھرتے ڈوبتے تاروں کے بھید کھولے گا
ظفر غوری