EN हिंदी
ٹوٹتے جسم کے مہتاب بکھر جا مجھ میں | شیح شیری
TuTte jism ke mahtab bikhar ja mujh mein

غزل

ٹوٹتے جسم کے مہتاب بکھر جا مجھ میں

مصور سبزواری

;

ٹوٹتے جسم کے مہتاب بکھر جا مجھ میں
میں چڑھی رات کا دریا ہوں اتر جا مجھ میں

میں تری یاد کے ساون کو کہاں برساؤں
اب کی رت میں کوئی بادل بھی نہ گرجا مجھ میں

جاتے قدموں کی کوئی چاپ ہی شاید سن لوں
ڈوبتے لمحوں کی بارات ابھر جا مجھ میں

جانے میں کون سے پت جھڑ میں ہوا تھا برباد
گرتے پتوں کی اک آواز ہے ہر جا مجھ میں

کوئی مہکار ہے خوشبو کی نہ رنگوں کی لکیر
ایک صحرا ہوں کہیں سے بھی گزر جا مجھ میں

ختم ہونے دے مرے ساتھ ہی اپنا بھی وجود
تو بھی اک نقش خرابے کا ہے مر جا مجھ میں

کوئی ہر گام مصورؔ یہ صدا دیتا ہے
میں تری آخری منزل ہوں ٹھہر جا مجھ میں