ٹوٹ کے بادل پھر برسا ہے
ہائے وہ جس کا گھر کچا ہے
کیوں نہیں اٹھتے پاؤں ہمارے
جب یہ رستہ گھر ہی کا ہے
میں نے بھی کچھ حال نہ پوچھا
وہ بھی کچھ چپ چپ سا رہا ہے
منزل منزل دیپ جلے ہیں
پھر بھی کتنا اندھیارا ہے
دل میں اٹھا کر رکھ لیتا ہوں
پاؤں میں جو کانٹا چبھتا ہے
اب تو یہ بھی بھول گیا ہوں
میرا اپنا اک چہرا ہے
شبنمؔ سے کیا پیاس بجھے گی
جب خود دریا بھی پیاسا ہے

غزل
ٹوٹ کے بادل پھر برسا ہے
شبنم نقوی