ٹوٹ کر رہ گیا آئینے سے رشتہ اپنا
ایک مدت ہوئی دیکھنا نہیں چہرا اپنا
کوئی طوفان ہے نہ اب کوئی تلاطم دل میں
ساحل درد پہ ٹھہرا ہے سفینہ اپنا
لفظ و معنی کے نئے پھول ابھر آئیں گے
نقش ہو جائے جو قرطاس پہ لہجہ اپنا
یاد خوشبو ہے چھپانے سے کہاں چھپتی ہے
موج گل خود ہی بنا لیتی ہے رستہ اپنا
جس کے جانے سے منور ہوئے پلکوں پہ چراغ
آج تک اس نے دکھایا نہیں چہرا اپنا
رات کے ساتھ اثرؔ لوٹ کے گھر جاتا ہے
راستہ دیکھ رہا ہوگا دریچہ اپنا
غزل
ٹوٹ کر رہ گیا آئینے سے رشتہ اپنا
محمد علی اثر