EN हिंदी
ٹوٹ کر رہ گیا آئینے سے رشتہ اپنا | شیح شیری
TuT kar rah gaya aaine se rishta apna

غزل

ٹوٹ کر رہ گیا آئینے سے رشتہ اپنا

محمد علی اثر

;

ٹوٹ کر رہ گیا آئینے سے رشتہ اپنا
ایک مدت ہوئی دیکھنا نہیں چہرا اپنا

کوئی طوفان ہے نہ اب کوئی تلاطم دل میں
ساحل درد پہ ٹھہرا ہے سفینہ اپنا

لفظ و معنی کے نئے پھول ابھر آئیں گے
نقش ہو جائے جو قرطاس پہ لہجہ اپنا

یاد خوشبو ہے چھپانے سے کہاں چھپتی ہے
موج گل خود ہی بنا لیتی ہے رستہ اپنا

جس کے جانے سے منور ہوئے پلکوں پہ چراغ
آج تک اس نے دکھایا نہیں چہرا اپنا

رات کے ساتھ اثرؔ لوٹ کے گھر جاتا ہے
راستہ دیکھ رہا ہوگا دریچہ اپنا