EN हिंदी
ٹوٹ کر اندر سے بکھرے اور ہم جل تھل ہوئے | شیح شیری
TuT kar andar se bikhre aur hum jal-thal hue

غزل

ٹوٹ کر اندر سے بکھرے اور ہم جل تھل ہوئے

صدیقہ شبنم

;

ٹوٹ کر اندر سے بکھرے اور ہم جل تھل ہوئے
تجھ سے جب بچھڑے تو اتنا روئے ہم بادل ہوئے

تھے کبھی آباد جو زخموں کے پھولوں سے یہاں
دیکھنا وہ شہر اس موسم میں سب جنگل ہوئے

دھوپ سے محرومیوں کی تھے ہراساں لوگ سب
روح کے آزار سے کچھ اور بھی پاگل ہوئے

جن سے وابستہ تھی شبنمؔ زندگی کی ہر خوشی
آہ کیسے لوگ تھے نظروں سے جو اوجھل ہوئے