ٹوٹ کر اندر سے بکھرے اور ہم جل تھل ہوئے
تجھ سے جب بچھڑے تو اتنا روئے ہم بادل ہوئے
تھے کبھی آباد جو زخموں کے پھولوں سے یہاں
دیکھنا وہ شہر اس موسم میں سب جنگل ہوئے
دھوپ سے محرومیوں کی تھے ہراساں لوگ سب
روح کے آزار سے کچھ اور بھی پاگل ہوئے
جن سے وابستہ تھی شبنمؔ زندگی کی ہر خوشی
آہ کیسے لوگ تھے نظروں سے جو اوجھل ہوئے
غزل
ٹوٹ کر اندر سے بکھرے اور ہم جل تھل ہوئے
صدیقہ شبنم