ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے
نقش تعمیر جہاں بن کے بگڑتے ہی رہے
اپنے ہی وہم و تذبذب تھے خرابی کا سبب
گھر عقیدوں کے بسائے تو اجڑتے ہی رہے
جانے کیا بات ہوئی موسم گل میں اب کے
پنکھ پنچھی کے فضاؤں میں بکھرتے ہی رہے
چند یادوں کی پناہ گاہ میں جانے کیوں ہم
سایۂ شام کی مانند سمٹتے ہی رہے
ہم نے ہر رنگ سے چہرے کو سجایا لیکن
اپنی پہچان کے آثار بگڑتے ہی رہے
غزل
ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے
رفعت شمیم