EN हिंदी
ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے | شیح شیری
TuT kar aalam-e-ajza mein bikharte hi rahe

غزل

ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے

رفعت شمیم

;

ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے
نقش تعمیر جہاں بن کے بگڑتے ہی رہے

اپنے ہی وہم و تذبذب تھے خرابی کا سبب
گھر عقیدوں کے بسائے تو اجڑتے ہی رہے

جانے کیا بات ہوئی موسم گل میں اب کے
پنکھ پنچھی کے فضاؤں میں بکھرتے ہی رہے

چند یادوں کی پناہ گاہ میں جانے کیوں ہم
سایۂ شام کی مانند سمٹتے ہی رہے

ہم نے ہر رنگ سے چہرے کو سجایا لیکن
اپنی پہچان کے آثار بگڑتے ہی رہے