طور دل خراب بنا پر بگڑ گیا
گو شیشۂ شراب بنا پر بگڑ گیا
لپٹا جو اس سے خواب میں میں آنکھ کھل گئی
کام اے قصور خواب بنا پر بگڑ گیا
ہر چند مثل خانۂ دنیائے بے ثبات
میں خانماں خراب بنا پر بگڑ گیا
ممکن ہوئی نہ تیرے پسینے سے ہمسری
کس کس طرح گلاب بنا پر بگڑ گیا
پرسش کے ساتھ عفو بھی اے مہرؔ تھا شریک
دفتر دم حساب بنا پر بگڑ گیا
غزل
طور دل خراب بنا پر بگڑ گیا
سید آغا علی مہر