EN हिंदी
طوفاں سے تھپیڑوں کے سہارے نکل آئے | شیح شیری
tufan se thapeDon ke sahaare nikal aae

غزل

طوفاں سے تھپیڑوں کے سہارے نکل آئے

نذیر بنارسی

;

طوفاں سے تھپیڑوں کے سہارے نکل آئے
ڈوبے تھے بری طرح سے بارے نکل آئے

پتھر پہ پڑی چوٹ شرارے نکل آئے
بے درد بھی ہمدرد ہمارے نکل آئے

اب تک کوئی تسکین کی صورت نہیں نکلی
دن ڈھل گیا شام آ گئی تارے نکل آئے

ان کو کسی حالت میں نہ بخشے گا کنارا
اوروں کو ڈبو کر جو کنارے نکل آئے

دیکھے تو کوئی معجزۂ ربط محبت
ان آنکھوں سے آج اشک ہمارے نکل آئے

جو چاہو کرو آج سے دنیا ہے تمہاری
اپنا جنہیں سمجھا وہ تمہارے نکل آئے

خود مل گئے اس بت سے مجھے کر کے نصیحت
واعظ بھی خدا ہی کے سنوارے نکل آئے

اک ایسے بزرگ آج نذیرؔ آ گئے پینے
مے خانے سے ہم شرم کے مارے نکل آئے