طوفاں سے بچ کے دامن ساحل میں رہ گیا
مشکل کے بعد اور بھی مشکل میں رہ گیا
اک شور تھا جو گوشۂ محفل میں رہ گیا
اک درد تھا جو دل سے اٹھا دل میں رہ گیا
اب وہ نگاہ ناز ہوئی مائل کرم
جب کوئی مدعا نہ مرے دل میں رہ گیا
منزل مرے قریب سے ہو کر گزر گئی
اور میں تلاش جادۂ منزل میں رہ گیا
منزل فنائے ذوق طلب کا مقام تھی
اچھا ہوا میں سرحد منزل میں رہ گیا
اللہ رے جذب عشق کہ حسن نگاہ قیس
اک نقش بن کے پردۂ محمل میں رہ گیا
نالہ تو خیر ننگ غم عشق تھا مگر
نغمہ بھی سوز و ساز کی محفل میں رہ گیا
سارے حجاب حسن نگاہوں سے ہٹ گئے
اک آئنہ ضرور مقابل میں رہ گیا
مجھ سے یہ پوچھتی ہیں مری ہچکیاں فگارؔ
اب کتنا فاصلہ تری منزل میں رہ گیا
غزل
طوفاں سے بچ کے دامن ساحل میں رہ گیا
فگار اناوی