EN हिंदी
طوفان میں بھنور میں نہ دھاروں کی گود میں | شیح شیری
tufan mein bhanwar mein na dhaaron ki god mein

غزل

طوفان میں بھنور میں نہ دھاروں کی گود میں

کوثر سیوانی

;

طوفان میں بھنور میں نہ دھاروں کی گود میں
ڈوبی ہے میری ناؤ کناروں کی گود میں

کیا جانے آج کیوں ہیں ستارے دھواں دھواں
یہ کیسی تیرگی ہے ستاروں کی گود میں

بد نام گلستاں میں خزاں ہی تو ہے مگر
کیا کیا نہ گل کھلے ہیں بہاروں کی گود میں

موسم تھا خوش گوار تو منظر تھا خوش گوار
اب وہ کشش کہاں ہے نظاروں کی گود میں

رفتار پر بھی قید تھی گفتار پر بھی قید
گزری بھی زندگی تو حصاروں کی گود میں

اے دوست دوسروں کا سہارا تو موت ہے
خود دار کب پلے ہیں سہاروں کی گود میں

مضراب وقت چھیڑے تو کوثرؔ سنائی دے
آواز گم ہے ساز کے تاروں کی گود میں