طوفان میں بھنور میں نہ دھاروں کی گود میں
ڈوبی ہے میری ناؤ کناروں کی گود میں
کیا جانے آج کیوں ہیں ستارے دھواں دھواں
یہ کیسی تیرگی ہے ستاروں کی گود میں
بد نام گلستاں میں خزاں ہی تو ہے مگر
کیا کیا نہ گل کھلے ہیں بہاروں کی گود میں
موسم تھا خوش گوار تو منظر تھا خوش گوار
اب وہ کشش کہاں ہے نظاروں کی گود میں
رفتار پر بھی قید تھی گفتار پر بھی قید
گزری بھی زندگی تو حصاروں کی گود میں
اے دوست دوسروں کا سہارا تو موت ہے
خود دار کب پلے ہیں سہاروں کی گود میں
مضراب وقت چھیڑے تو کوثرؔ سنائی دے
آواز گم ہے ساز کے تاروں کی گود میں
غزل
طوفان میں بھنور میں نہ دھاروں کی گود میں
کوثر سیوانی