EN हिंदी
طوفاں ہی نہیں گھات میں ہوں جس کے بھنور بھی | شیح شیری
tufan hi nahin ghat mein hon jis ke bhanwar bhi

غزل

طوفاں ہی نہیں گھات میں ہوں جس کے بھنور بھی

خادم رزمی

;

طوفاں ہی نہیں گھات میں ہوں جس کے بھنور بھی
ملتے ہیں اسی گہرے سمندر سے گہر بھی

سہتا ہے جو اک حبس مسلسل کی گرانی
ہوتا ہے اسی شہر سے آندھی کا گزر بھی

یوں پیار ہے اس سے کہ فقط میں ہی نہیں ہوں
مٹی سے بنے ہیں مرے دیوار بھی در بھی

گر دیپ جلا کر اسے آگاہ نہ کرتا
محفوظ تھا ہر شب کی ہوا سے مرا گھر بھی

آنکھوں سے مگر رات کا پتھر نہیں ہٹتا
تعبیر تو رکھتا ہے مرا خواب سحر بھی

جلتے ہیں کڑی دھوپ میں کیوں اپنے ہی آنگن
سورج تو یہی ہے جو ابھرتا ہے ادھر بھی

نسبت ہے ہمیں ایسے قبیلے سے کہ جس کے
نیزوں پہ صدا دیتے ہیں بے جسم کے سر بھی

کچھ سوچ کے وہ باب قفس کھول رہا ہے
کل تک تھی گراں جس پہ مری جنبش پر بھی

ہم لوگ فقط دشت نوردی نہیں کرتے
آتا ہے ہمیں شہر بسانے کا ہنر بھی