EN हिंदी
طوفان بلا سے جو میں بچ کر گزر آیا | شیح شیری
tufan-e-bala se jo main bach kar guzar aaya

غزل

طوفان بلا سے جو میں بچ کر گزر آیا

مظفر حنفی

;

طوفان بلا سے جو میں بچ کر گزر آیا
وہ پوچھ کے صحرا سے پتہ میرے گھر آیا

آغاز تمنا ہو کہ انجام تمنا
الزام بہر حال ہمارے ہی سر آیا

اس میں تو کوئی دل کی خطا ہو نہیں سکتی
جب آنکھ لگی آپ کا چہرہ نظر آیا

بستی میں مری کج کلہی جرم ہوئی ہے
دیکھوں گا اگر اب کوئی پتھر ادھر آیا

آیا تری محفل میں جو بھولے سے مرا نام
آنکھوں میں زمانے کی وہیں خون اتر آیا

ایسا بھی کہیں ترک تعلق میں ہوا ہے
نامہ کوئی آیا نہ کوئی نامہ بر آیا

فن ہے وہ سمندر کہ کنارہ نہیں جس کا
ڈوبا ہوں مظفرؔ تو مرا نام ابھر آیا