تو سرحد خیال سے آگے گزر گیا
میں تیری جستجو میں بحد نظر گیا
دل کو کریدنے سے مری جان فائدہ
اک زخم تھا کہ وقت کی آندھی سے بھر گیا
ساحل تمام عمر یوں ہی تشنہ لب رہا
سیلاب کتنی بار یہاں سے گزر گیا
عمر گریز پا کو کہاں ڈھونڈنے چلیں
وہ نقش لوح وقت سے کب کا اتر گیا
غزل
تو سرحد خیال سے آگے گزر گیا
غلام جیلانی اصغر