EN हिंदी
تو سرحد خیال سے آگے گزر گیا | شیح شیری
tu sarhad-e-KHayal se aage guzar gaya

غزل

تو سرحد خیال سے آگے گزر گیا

غلام جیلانی اصغر

;

تو سرحد خیال سے آگے گزر گیا
میں تیری جستجو میں بحد نظر گیا

دل کو کریدنے سے مری جان فائدہ
اک زخم تھا کہ وقت کی آندھی سے بھر گیا

ساحل تمام عمر یوں ہی تشنہ لب رہا
سیلاب کتنی بار یہاں سے گزر گیا

عمر گریز پا کو کہاں ڈھونڈنے چلیں
وہ نقش لوح وقت سے کب کا اتر گیا