تو سمجھتا ہے تو خود تیری نظر گہری نہیں
ورنہ بنیاد خزاں اے بے خبر گہری نہیں
وصل شیریں ہے نہ جوئے شیر ہے تیرے نصیب
ضرب اے فرہاد تیشے کی اگر گہری نہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ خود تیری نوا ہو نرم خیز
نیند لوگوں کی تو اے مرغ سحر گہری نہیں
زندگی کی آج قدریں ہیں فقط گملوں کے پھول
ان میں رعنائی ہے جڑ ان کی مگر گہری نہیں
ہم نے ان آنکھوں میں اکثر جھانک کر دیکھا شریفؔ
کوئی شے مرموز اتنی اس قدر گہری نہیں
غزل
تو سمجھتا ہے تو خود تیری نظر گہری نہیں
شریف کنجاہی