EN हिंदी
تو نے کیوں ہم سے توقع نہ مسافر رکھی | شیح شیری
tu ne kyun humse tawaqqo na musafir rakkhi

غزل

تو نے کیوں ہم سے توقع نہ مسافر رکھی

ظفر عجمی

;

تو نے کیوں ہم سے توقع نہ مسافر رکھی
ہم نے تو جاں بھی ترے واسطے حاضر رکھی

ہاں اب اس سمت نہیں جانا پر اے دل اے دل
بام پر اس نے کوئی شمع اگر پھر رکھی

یہ الگ بات کہ وہ دل سے کسی اور کا تھا
بات تو اس نے ہماری بھی بظاہر رکھی

اب کسی خواب کی زنجیر نہیں پاؤں میں
طاق پر وصل کی امید بھی آخر رکھی

جب بھی جی چاہتا مرنے کو ہزاروں تھے جواز
زندگی ہم نے سلامت تری خاطر رکھی

ہجر کی شب کوئی وعدہ نہ کوئی یاد ظفرؔ
تو نے کیا چیز بچا کر مرے شاعر رکھی