تو نے غم خواہ مخواہ اس کا اٹھایا ہوا ہے
دل یہ ناداں تو کسی اور پہ آیا ہوا ہے
اس زمانے کو دکھانے کے لیے چہرے پر
ہم نے اک چہرۂ شاداب چڑھایا ہوا ہے
رات بھر چاند ستاروں سے سجاتے ہیں اسے
ہم نے جس گھر کو تصور میں بسایا ہوا ہے
ایک چہرہ جسے ہم نے بھی نہیں دیکھا کبھی
اپنی آنکھوں میں زمانے سے چھپایا ہوا ہے
سہل لگتا ہے تجھے کیا سفر شعر و سخن
عمر بھر دھوپ میں جھلسے ہیں تو سایہ ہوا ہے
ورد کرتے تھے کبھی جس کا شب و روز سلیمؔ
جانے کیا نام تھا اب دل نے بھلایا ہوا ہے

غزل
تو نے غم خواہ مخواہ اس کا اٹھایا ہوا ہے
سلیم سرفراز