EN हिंदी
تو نہیں ہے تو مری شام اکیلی چپ ہے | شیح شیری
tu nahin hai to meri sham akeli chup hai

غزل

تو نہیں ہے تو مری شام اکیلی چپ ہے

صبیحہ صبا

;

تو نہیں ہے تو مری شام اکیلی چپ ہے
یاد میں دل کی یہ ویران حویلی چپ ہے

ہر طرف تھی بڑی مہکار میرے آنگن میں
اپنے پھولوں کے لئے میری چنبیلی چپ ہے

بولتے ہاتھ بھی خاموش ہوئے بیٹھے ہیں
اک مقدر کی طرح میری ہتھیلی چپ ہے

بھید کھلتا ہی نہیں کیسی اداسی چھائی
بوجھ سکتا نہیں کوئی وہ پہیلی چپ ہے

اتنا ہنستی تھی کہ آنسو نکل آتے تھے صباؔ
یہ نئی بات بہاروں کی سہیلی چپ ہے