تو نہیں ہے تو مری شام اکیلی چپ ہے
یاد میں دل کی یہ ویران حویلی چپ ہے
ہر طرف تھی بڑی مہکار میرے آنگن میں
اپنے پھولوں کے لئے میری چنبیلی چپ ہے
بولتے ہاتھ بھی خاموش ہوئے بیٹھے ہیں
اک مقدر کی طرح میری ہتھیلی چپ ہے
بھید کھلتا ہی نہیں کیسی اداسی چھائی
بوجھ سکتا نہیں کوئی وہ پہیلی چپ ہے
اتنا ہنستی تھی کہ آنسو نکل آتے تھے صباؔ
یہ نئی بات بہاروں کی سہیلی چپ ہے
غزل
تو نہیں ہے تو مری شام اکیلی چپ ہے
صبیحہ صبا